جب ساحر اور امرتا ملنے کا ارادہ کرتے تو امرتا اپنی پسندیدہ جگہ تاج محل کا
انتخاب کرتیں ۔ ساحر اس مقام سے چڑتے تھے اور کہیں اور ملاقات کی خواہش کرتے تھے ۔ انہیں تاج محل سے کوفت محسوس ھوتی تھی اور وہ امرتا سے اصرار کرتے کہ کہیں اور ملا جائے ۔اسی تناظر میں ساحر کی ایک شاھکار نظم تخلیق ھوئی جسے تاج محل کا نام دیا گیا ۔
"تاج محل"
ساحر لدھیانوی
تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں
میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مزاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
No comments:
Post a Comment